میری ناکام خواہش
میں نے غریب گھرانے میں جنم لیا، ابتدائی تعلیم اپنے گائوں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان پاس کرکے میری خواہش ہوئی کہ مزید تعلیم حاصل کروں لیکن گھر کے مسائل اور مشکلات آڑے آئیں اور ماں باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ ڈرائیونگ کی اور کئی کام کئے مگر کہیں کامیابی نہ ہوئی، پھر ملک چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔یہ بھی پورا نہ ہوا، پھر مجھے یقین آگیا کہ میری قسمت کا ہی قصور ہے۔ میری خواہش تھی کہ اپنی قوم، ملک اور اپنے علاقے کے لئے رہبر بن جائوں ، اب میں صحافی بننا چاہتا ہوں ۔(رشید الدین‘ گجرات)
مشورہ:آپ کی خواہشات تو اچھی رہی ہیں مگر تعلیم اور ہنر میں پیچھے رہنے کی وجہ سے اب تک کسی ایک فیلڈ میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ بہت سے کام کئے اور چھوڑتے گئے، کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایک اچھا کام یکسوئی سے کریں، اب صحافی بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی تعلیم حاصل کرنی چاہئے، صبح میں کام کریں اور پھر جو وقت ملے اس میں مطالعہ کیجئے یا شام میں کام کریں، صبح میں کالج میں داخلہ لے لیں، ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں کوشش اورجدوجہد کے ذریعے اپنا کوئی مقام بنایا ہے اور زندگی میں کامیاب ہوئے ہیں مگر مایوس نہیں ہوئے۔ آپ کو بھی قسمت کی طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، قسمت تو محنت اور کوشش سے بدل سکتی ہے جو آج ناکام ہیں ضروری نہیں کہ آنے والے کل میں بھی ناکام ہوں۔ حصول معاش کیلئے محض سکول پاس کرلینا کافی نہیں ہوگا، جب تک کوئی کام نہ سیکھا جائے روز گار ملنا مشکل ہوتا ہے۔
شاید اسے یا د ہو کہ نا یاد ہو
ہمارے گائوں میں پردہ کرنے کا رواج ہے مگر میرے والد کے ایک ملنے والے تھے جن کے گھر میں جاتا تھا‘ ان کی بیٹی پردہ نہ کرتی اور سامنے آکر بات کرلیتی تھی۔ ایک روز میں نے اسے خط لکھا ، اپنی محبت کا اظہار کیا اور یہ بھی لکھا کہ خط کا جواب نہ دیا تو آپ بیمار ہوسکتی ہیں۔ جب میں دوسرے روز اس کے گھر گیا تو واقعی وہ بیمار تھی، اس نے مجھ سے کہا کہ آج تو چھوڑ دیا ہے لیکن اگر آئندہ خط لکھا تو اپنے یا تمہارے ابو کو بتادوں گی۔ یہ سن کر تو میں ڈر گیا اور اس کے بعد سے پھر کبھی خط نہ لکھا۔ اس واقعہ کو سات سال ہوگئے ہیں ، میں نے اسے پھر کبھی خط نہ لکھا اور نہ کوئی ایسی حرکت کی جس سے اسے شرمندہ ہونا پڑے۔ پنا نہیں میں اسے یاد بھی ہوں یا وہ مجھے بھول گئی۔ (آفتاب ریاض‘ساہیوال)
مشورہ:تحریر سے اندازہ ہورہا ہے کہ آپ کافی عرصے سے ان لوگوں سے نہیں ملے۔ اگر اب بھی اسی کا خیال ہے تو والدین سے بات کریں کہ وہ ان کے گھر آپ کا رشتہ لے کر جائیں ، اگر رشتہ قبول ہوجاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے دوسری صورت میں کسی اور اچھی لڑکی سے والدین کی رضا مندی حاصل کرکے شادی کرلیں۔
ذہنی بیماری
میں اپنے دوست سے بات کرتا ہوں تو وہ کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے، جب میں اس سے کہتا ہوں کہ تم میری بات نہیں سن رہے تو وہ کہتا ہے کہ میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ تمہاری بات سنوں مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوجاتا ہے، جب مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میری سوچ بہت گہری ہوجاتی ہے اور جو میں سوچ رہا ہوتا ہوں ، کچھ دیر بعد میرے سامنے آجاتا ہے، اگر کوئی میلوں دور بھی ہے تو میں اندازہ لگا لیتا ہوں کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اس دوران اس کی آنکھیں لال ہوجاتی ہیں اور سر میں شدید درد شروع ہوجاتا ہے۔(محمد شمریز‘بہاولپور)
مشورہ:عام طور پر لوگ اپنے مخاطب کی بات سنتے ہیں اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مناسب جواب بھی دیتے ہیں یعنی توجہ اس شخص پر ہوتی ہے جو بات کرتا ہے۔ گفتگو کے دوران وقفے وقفے سے توجہ ایک دوسرے کی طرف مبذول ہوتی ہے، دوست ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بہترین گفتگو کرتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ سوچوں سے کہیں اور چلا گیا ہے اور دوسروں کے بارے میں بتا سکتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں جبکہ وہ وہاں پر موجود بھی نہیںہوتے، تو یہ دعویٰ غلط ہے۔ اس دوران آنکھوں کا سرخ ہوجانا اور سر میں شدید درد ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دوست کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے دماغ کے کسی ڈاکٹر کو دکھایا جاسکتا ہے کیونکہ سر کا درد کسی نہ کسی مرض کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔
بات کرتے ہوئے مشکل
راستہ چلتے ہوئے دو یا زیادہ افراد کو ہنستے یا باتیں کرتے دیکھتا ہوں تو گمان ہوتا ہے کہ میرے متعلق باتیں کررہے ہیں یا مجھ پر ہنس رہے ہیں ، اس احساس سے دیر تک سوچ بچار اور ذہنی کوفت رہتی ہے، پیشے کے اعتبار سے ا چھا ہوں، یونیورسٹی میں ملازمت ہے، طلباءو طالبات اپنے واجبات لینے اور دیگر کاموں سے میرے پاس آتے ہیں ، سب ہی سے بات کرتا ہوں اور کوئی احساس نہیں ہوتا جبکہ دفتر میں ساتھی کارکن اگر لڑکی ہو تو اس سے نظر ملا کر بات نہیں کرسکتا اور بات کرتے ہوئے کمر موڑ لیتا ہوں، میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا کروں مگر مشکل ہوجاتی ہے۔(ظ،ل)
مشورہ: کسی کو باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر یہ گمان ہونا کہ میرے بارے میں باتیں ہورہی ہیں، اکثر لوگوں کے ساتھ ہوجاتا ہے لیکن یہ باتیں کرتے دیکھ کر یقین ہونا کہ میرے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں یا سازشیں کررہے ہیں ، ذہنی مرض کی علامت ہے۔ آپ کے روئیے کو نارمل ثابت کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ آپ اپنے کام میں اچھے ہیں، اب صرف یہ مسئلہ ہوگیا کہ ساتھی کارکن سے نظر ملا کر با ت کرنے میں دشواری ہوتی ہے، نظر نہ ملانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ پیٹھ موڑ کر بات کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا، گفتگو کے دوران شعوری کوشش کرتے ہوئے بغیر کمر موڑے بات کریں ۔ سب سے اہم بات جو آپ کو ذہن نشین کرنی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی یہ الجھنیں پیدائشی نہیں ہے، نہ ہی اس کا تعلق کسی ذہنی مرض سے ہے اور اس کے ساتھ اپنے لڑکے ہونے کا احساس غالب رہنا بات کرنے میں مشکل پیدا کررہاہے، اعتماد سے وہی لوگ بات کرتے ہیں جو اس طرح کے احساسات کی پرواہ نہ کریں اور صرف کام کی بات کریں، غیر ضروری گفتگو الجھنیں اور طرح طرح کے احساسات مداخلت کرتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں